امام شوکانی نے اپنی کتاب میں بسر بن ارطاۃ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص میں رائی برابر بھی ایمان ہوتو وہ بھی یہ کام نہ کرے جو مکروہ کام بسر بن ارطاۃ نے اسلامی تاریخ میں کئے ہیں
قطر کے قاضی القضاہ نے اسکی شرح میں لکھا ہے کہ بسر بن ارطاۃ اس قابل نہیں کہ اسکی کسی حدیث کو بھی بیان یا نقل کیا جائے
آبادیوں کا قتل اور مسلمان لڑکیوں کی بیع جیسے غیر انسانی و اسلامی افعال بھی بسر بن ارطاۃ کے ضمیر کو جگا نہ سکے
اس کے ساتھ ہی قاضی القضاٰ لکھتے ہیں کہ صحابی روسول صلعم پر تنقید بالکل ٹھیک ہے اگر اس نے غلط کام کئے ہیں جن کی اسلامی معاشرے اور دین اسلام میں بالکل گنجائش نہیں
اللہ تعالیٰ نسبت کو نہیں دیکھتا کہ کوئی نبی صلعم کے ساتھ رہا تو اسے معاف کردیا جائے گا نلکہ ایسے شخص کی ذمہ داری دہری ہو جاتی ہے کہ وہ صحآبی رسول بھی لہذا ایسے کسی کام سے بھی احتیاط کرے جو نبی پاک صلعم نے نہ کیا ہو
قطر کے قاضی القضاہ نے اسکی شرح میں لکھا ہے کہ بسر بن ارطاۃ اس قابل نہیں کہ اسکی کسی حدیث کو بھی بیان یا نقل کیا جائے
آبادیوں کا قتل اور مسلمان لڑکیوں کی بیع جیسے غیر انسانی و اسلامی افعال بھی بسر بن ارطاۃ کے ضمیر کو جگا نہ سکے
اس کے ساتھ ہی قاضی القضاٰ لکھتے ہیں کہ صحابی روسول صلعم پر تنقید بالکل ٹھیک ہے اگر اس نے غلط کام کئے ہیں جن کی اسلامی معاشرے اور دین اسلام میں بالکل گنجائش نہیں
اللہ تعالیٰ نسبت کو نہیں دیکھتا کہ کوئی نبی صلعم کے ساتھ رہا تو اسے معاف کردیا جائے گا نلکہ ایسے شخص کی ذمہ داری دہری ہو جاتی ہے کہ وہ صحآبی رسول بھی لہذا ایسے کسی کام سے بھی احتیاط کرے جو نبی پاک صلعم نے نہ کیا ہو
ایک جھوٹ اسلامی تاریخ میں تسلسل سے دہرایا جاتا ہے جہ حضرت علی پچھتاتے تھے کہ وہ غلطی پر تھے اور انہوں نے ناحب معاویہ سے جنگ کی
حیرت کی بات ہے کہ تاریخ اسلامی میں ایسی کوئی روائت یا سند نہیں ملتی کہ حضرت علی نے پچھتاو کا اظہار کیا ہو بلکہ آخری وقت تک وہ معاویہ سے جنگ کی تیاری کرتے رہے
انہوں نے معاویہ سے کوئی مصالحت نہیں کی اور نہ ہی اس کو مخصوص علاقہ جات کا خلیفہ تسلیم کیا
معاویہ جس نے قصاص کا بہانہ بنا کر خلافت کو ہتھیائی تھی
حیران کن بات ہے کہ عسکری طور پر مضبوط ہونے کے باوجود معاویہ نے قصاص نہیں لیا، حضرت علی رضہ کی شہادت کے بعد یا پہلے بھی معاویہ نے قصاص لینے کے سلسلے میں کوئی اقدام نہ کیا
حضرت علی کا مؤقف یہ تھا کہ کہ انکو شوریٰ نے خلیفہ چنا ہے لہذا پہلے بیعت مکمل ہوجائے جیسا کہ اسلامی طریقہ کے مطابق بیعت کی جاتی ہے
حیرت کی بات ہے کہ تاریخ اسلامی میں ایسی کوئی روائت یا سند نہیں ملتی کہ حضرت علی نے پچھتاو کا اظہار کیا ہو بلکہ آخری وقت تک وہ معاویہ سے جنگ کی تیاری کرتے رہے
انہوں نے معاویہ سے کوئی مصالحت نہیں کی اور نہ ہی اس کو مخصوص علاقہ جات کا خلیفہ تسلیم کیا
معاویہ جس نے قصاص کا بہانہ بنا کر خلافت کو ہتھیائی تھی
حیران کن بات ہے کہ عسکری طور پر مضبوط ہونے کے باوجود معاویہ نے قصاص نہیں لیا، حضرت علی رضہ کی شہادت کے بعد یا پہلے بھی معاویہ نے قصاص لینے کے سلسلے میں کوئی اقدام نہ کیا
حضرت علی کا مؤقف یہ تھا کہ کہ انکو شوریٰ نے خلیفہ چنا ہے لہذا پہلے بیعت مکمل ہوجائے جیسا کہ اسلامی طریقہ کے مطابق بیعت کی جاتی ہے
اس کے بعد ورثاء آئیں اور دعویٰ کریں اور مجرم کو نامزد کریں اور اسے پہچانیں خواہ وہ ایک ہے یا ایک سے زیادہ تاکہ اس پر باقاعدہ گواہوں کے بعد حد جاری کی جاسکے
مگر کسی نے ایک بھی نہ سنی اور ام المؤمنین عائشی صدیقہ رضہ اور طلحہ و زبیر رضہ بھی علی رضہ کے مقابلے میں قصاص لینے کے سلسلے میں آگئے
حضرت علی رضہ کے مؤقف کی دلیل اس بات سے بھی ملتی ہے کہ جب طلحہ و زبیر اور عائشہ رضہ نے بصرہ میں ایک شخص ہرقوس کو خلیفہ عثمان رضہ کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو 6000 افراد تلواریں اٹھا سامنے آگئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے ہرقوس کو گرفتار کرتے ہو تو طلحہ و زبیر اور عائشہ رضہ نے توقف کیا
تب حضرت علی نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ قصاص تب تک لیا نہیں جاسکتا جب تک کہ حکموت مضبوط اور خلیفہ کی بیعت مکمل نہ ہو، اور بیان کیا جاچکا ہے کہ معاویہ نے حضرت علی کی بیعت سے صاف انکار کردیا تھاحالانکہ ان کو شوریٰ نے چنا تھا اسی شوریٰ نے جسے خلیفہ عمر بن خطاب رضہ نے بنایا تھا
مگر کسی نے ایک بھی نہ سنی اور ام المؤمنین عائشی صدیقہ رضہ اور طلحہ و زبیر رضہ بھی علی رضہ کے مقابلے میں قصاص لینے کے سلسلے میں آگئے
حضرت علی رضہ کے مؤقف کی دلیل اس بات سے بھی ملتی ہے کہ جب طلحہ و زبیر اور عائشہ رضہ نے بصرہ میں ایک شخص ہرقوس کو خلیفہ عثمان رضہ کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو 6000 افراد تلواریں اٹھا سامنے آگئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے ہرقوس کو گرفتار کرتے ہو تو طلحہ و زبیر اور عائشہ رضہ نے توقف کیا
تب حضرت علی نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ قصاص تب تک لیا نہیں جاسکتا جب تک کہ حکموت مضبوط اور خلیفہ کی بیعت مکمل نہ ہو، اور بیان کیا جاچکا ہے کہ معاویہ نے حضرت علی کی بیعت سے صاف انکار کردیا تھاحالانکہ ان کو شوریٰ نے چنا تھا اسی شوریٰ نے جسے خلیفہ عمر بن خطاب رضہ نے بنایا تھا
یہی مؤقف قاضی ابو بکرابن عربی کا ہے وہ اپنی تفسیر احکام القرآن میں مزید فرماتے ہیں کہ
اگر امام وقت یہ سمجھے کہ قصاص لینے سے امت میں فتنہ اور ملک کے تباہ ہونے کا خدشہ ہو تو امام کو حق حاصل ہے کہ وہ خون معاف کرے یہی اسلامی طریقہ ہے
وہ مزید لکھتے ہیں کہ علماء اسلام بھی متفق ہیں اور دین سے بھی ثابت ہوگیا اور تاریخی حقائق بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت علی خلیفہ برحق تھے جو بھی انکے مقابلے پر آیا خواہ خارجی، عائشہ رضہ طلحہ و زبیر رضہ تھے ان سے جنگ کرنا علی پر فرض تھا
ان کو ناحق معزول کیا گیا جبکہ ایک وجہ بھی انکے معزول کرنے کی نہیں تھی اور معاویہ میں حضرت علی رضہ سے بڑھ کرکوئی ایک خوبی بھی نہ تھی کہ اسے خلیفہ بنایا گیا
اگر امام وقت یہ سمجھے کہ قصاص لینے سے امت میں فتنہ اور ملک کے تباہ ہونے کا خدشہ ہو تو امام کو حق حاصل ہے کہ وہ خون معاف کرے یہی اسلامی طریقہ ہے
وہ مزید لکھتے ہیں کہ علماء اسلام بھی متفق ہیں اور دین سے بھی ثابت ہوگیا اور تاریخی حقائق بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت علی خلیفہ برحق تھے جو بھی انکے مقابلے پر آیا خواہ خارجی، عائشہ رضہ طلحہ و زبیر رضہ تھے ان سے جنگ کرنا علی پر فرض تھا
ان کو ناحق معزول کیا گیا جبکہ ایک وجہ بھی انکے معزول کرنے کی نہیں تھی اور معاویہ میں حضرت علی رضہ سے بڑھ کرکوئی ایک خوبی بھی نہ تھی کہ اسے خلیفہ بنایا گیا
0 comments:
Post a Comment
Press "Hide/Show" To Read Other's Comments