Like us on Facebook

Aug 14, 2011

The Loneliest Commander 14 (Urdu) Imam Hassan A.S

حضرت محمد صلعم کی احادیث معجزہ ہیں جو انکے خاتم النبیین اور نبیء برحق ہونے کی گواہی ہیں
متواتر اور صحیح احادیث سے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں (امام ابن تیمیہ، ابن کثیر نواب سید صدیق حسن رحہ ،ابن اثیر،اب حجر )
(نواب سید صدیق نے ان تمام احادیث مبارکہ صلعم کو جمع کردیا ہے ج
و اب تک پوری ہوچکی ہیں یا قیامت تک پوری ہونگی انہوں نے اسی کتاب کے صفحہ نمبر 90 پر رقم کیا ہے کہ سیدالمسلمین و خاتم خلفائے راشدین حسن ابن علی رضہ نے 6 ماہ خلافت کے بعد صلح کرلی اور خلافت کی باگ دوڑ معاویہ کے حوالے کردی اور اس طرح خاتم النبیین کی وہ حدیث سچ ہوگئی جو متواتر منقول ہے کہ اللہ میرے اس بیٹے کے ذریعہ دو مسلم گروہوں کے مابین صلح کروائے گا اور دوسری یہ کہ مجھ سے 30 سال بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کازمانہ بھی اسی دن آگیا جس دن حسن خلافت سے دستبردار ہوئے)
(ابن کثیر نے افسوس کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ کاش عراقی حسن رضہ کی قدر کرتے تو آج عالم اسلام کے حالات کچھ اور ہوتے اور مزید لکھتے ہیں کہ اگر کوئی پوچھے کہ کیسے حسن بن علی خلیفہءراشد ہیں تو فرماتے ہیں کہ وہی حدیث دلیل ہے جس میں محمد صلعم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد 30سال تک نبوت و رحمت ہے اور اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت اور حسن بن علی رضہ کی خلافت کے 6 ماہ جمع کرکے وہ 30 سال پورے ہوجاتے ہیں جن کی خبر احادیث میں ملتی ہے)

سب متفق ہیں کہ محمد صلعم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد 30سال کا زمانہ نبوت و رحمت کا زمانہ ہے اس کے بعد ملکا غاصا یعنی کاٹ کھانے والی بادشاہت،(اس مکمل حدیث پر بعد میں بات کریں گے انشاءاللہ کیونکہ اس حدیث میں قیامت تک آنے والے حوادث کی ترتیب وارخبر ہے
ابن اثیر رحہ اپنی کتاب اسدالغابہ جلد دوم میں فرماتے ہیں کہ ابو محمد حسن ابن علی رضہ نے خلافت سے دستبرداری اور معاویہ سے صلح کے بعداس طرح خطبہ ارشاد فرمایا
اللہ کی حمد ثناء کے بعد، جو جنگ بندی میں نے شامیوں سے کی ہے نہ تو مجے اس میں کوئی شک ہے کہ میرا اور میرے باپ کاطریقہ غلط تھا اور نہ ہی مجھے اپنے مؤقف میں کوئی شرمندگی ہے جب تم شامیوں سے لڑرہے تھے اس وقت تمہارے اندر ایمان کی سلامتی اورثابت قدمی تھی، مگر اب فوج میں نہ رواداری ہے اور نہ صبر،صفین کی جنگ دین بچانے کی خاطر تھی،مگر اب تم سب دنیا کی خاطر جنگ پر آمادہ ہو اللہ گواہ ہے کہ میں ویسا ہی ہوں جیسا پہلے تھا(ثابت قدم)مگر تم پہلے جیسے نہیں رہے،تم میں سے کچھ صفین میں شہید ہونے والوں پر نوحہ کناں ہیں تم میں دلیری نہیں رہی،کچھ خارجی ہوگئے ہیں (یعنی انتشار پیدا ہوگیا)باقی مدد سے انکاری ہیں، بےشک معاویہ جس بات کی دعوت دے رہا ہے (یعنی صلح کی)اس میں نہ عزت ہے اور نہ انصاف، اب اگر تم شہادت چاہتے ہوتو حسن بالکل تسلیم نہیں ہوگا، اگر تم موت کو گلے لگانا چاہتے ہو اور چاہتے ہو کہ فیصلہ تلوار کی دھار سے ہو تو میں اس کو اسکی صلح واپس کردیتاہوں پھر جو اللہ کومنظور،اور اگر تم دنیا چاہتے ہو تو میں صلح قبول کرلیتاہوں اور تمہارے لئے امان لے لیتاہوں
سب پکارنے لگے کہ ہم صلح چاہتے ہیں تو حسن رضہ خلافت سے دستبردار ہوکر مدینہ کو چلے گئے
حضرت حسن رضہ کے اس خطبے سے پتہ چلتا ہے کہ نہ توانہوں نے مصالحت میں پہلی، اور نہ ہی وہ معاویہ کو خلیفہ سمجھتے تھے اور نہ ہی وہ جنگوں سے اکتائے تھے اور نہ ہی وہ معاویہ سے صلح کرنے میں عزت سمجھتے تھے
Related Articles in Same Category
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Press "Hide/Show" To Read Other's Comments

Item Reviewed: The Loneliest Commander 14 (Urdu) Imam Hassan A.S Description: Rating: 5 Reviewed By: Unknown
Scroll to Top