Like us on Facebook

Sep 24, 2011

Imam Jafar Sadiq (R.A)

نام ونسب
جعفر نام ،کنیت ابوعبداللہ اور صادق لقب تھا۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور شھید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پر پوتے تھے۔ سلسلہ امامت کی آٹھویں کڑی اور اھلبیت (ع) میں سے چھٹے امام تھے ۔ آپ کی والدہ حضرت محمد بن ابی بکر کی پوتی تھیں۔
ولادت
    ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کی ولادت کی تاریخ کو آپ کی ولادت ہوئی ۔ خاندان آل محمد (ص) میں اس اضافہ کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔ بارہ برس آپ نے اپنے جد بزرگوار جضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے زیر سایہ تربیت پائی ۔ واقعہ کربلا کو ابھی صرف بائیس سال گزرے تھےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آنکھ کھولی تو اسی غم و اندوہ کی فضا میں شب و روز شھادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور اس غم میں گریہ و بکا کی آوازوں نے ان کے دل و دماغ پر وہ اثر قائم کردیا تھا کہ جیسے وہ خود واقعہ کربلا میں موجود تھے چنانچہ اس کے بعد ہمیشہ اور عمر بھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس جس طرح اپنے جد مظلوم امام حسین علیہ السلام کی یاد قائم رکھنےکی کوشش کی ہے وہ اپنے آپ ہی مثال ہے ۔
دور امامت
 امام محمد باقر علیہ السلام کی وفات ہجری 114 کے بعد ۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف عائد ہوئیں اور اس وقت دمشق میں ھشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی۔ اس ‍ زمانہ سلطنت میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہو چکا تھا اس کے باوجود آپ نے ان فرائض کو جو اشاعت علوم اھلبیت (ع) اور نشر شریعت کے قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے برابر جاری رکھا تھا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو عوام کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اور منصب امامت پر فائز ہوئے آپ کا دور امامت چونتیس برسوں پر محیط ہے ۔ سن ایک سو چودہ سے ایک سو بتیس ہجری قمری تک اموی دور حکومت تھا جبکہ ایک سو بتیس سے لے کر ایک سو اڑتالیس ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک عباسی حکمراں برسراقتدار تھے ۔
جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی جس کی بناپر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا ۔ اسی دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ‌زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری ‌زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتاہے ۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں ۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا ۔
آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تفلب ، ہشام بن سالم ، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیاجا سکتاہے ۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیداکیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو ‌زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں ۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں ۔ اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کےشاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا" دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا ۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہاہے : " میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا"۔
ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا
لولا السنتان ۔ لھک نعمان
اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا
امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور اخلاقی کمالات کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھاہے ۔
آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اپنی باتوں کی نصیحت کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں : اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ‌زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتاہے ۔

پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام اور والد امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ گزارا یہ دور سن تراسی ہجری سے لے کر ایک سو چودہ ہجری قمری تک پھیلا ہوا ہے ۔

دوسرا دور ایک سو چودہ ہجری سے ایک سو چالیس ہجری قمری پر محیط ہے اس دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف پھیلانے کا بھرپور موقع ملا جس سے آپ نے بھرپور فا‏ئدہ اٹھایا ۔ اس دور میں آپ نے چارہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب شیعہ کو عروج پر پہنچایا ۔

تیسرا دور امام کی آخری آٹھ سال کی زندگی پر مشتمل ہے ۔ اس دور میں آپ پر عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی ۔ عباسیوں نے چونکہ خاندان پیغمبر کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا شروع شروع میں عباسیوں نے امام علیہ السلام پر دباؤ نہیں ڈالا اور انہیں تنگ نہیں کیا لیکن عباسیوں نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد امویوں کی روش اپنا لی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے محبین کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اس میں وہ امویوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ۔

وہ احادیث جو”صادقین“ یعنی امام پنجم اور امام ششم سے نقل ھوئی ھیں ان تمام احادیث کے برابر ھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے دس ائمہ علیھم السلام سے نقل ھوئی ھیں بلکہ ان سے بھی زیادہ ھیں۔

آپ اپنے آخری دور میں عباسی خلیفہ منصور کے مظالم سے دوچار ھو گئے تھے۔ آپ پر پابندی اور نظر بندی عائد کردی گئی، آپ کو آزار و شکنجے بھی دیے گئے اور اس کے ساتھ ھی علوی سادات کا اس قدر قتل عام کیا گیا کہ بنی امیہ اپنی سفاکی اورظلم و ستم کے با وجود اس حد تک نہ پھنچے تھے۔ خلیفہ عباسی منصور کے حکم سے ان کے پیروکاروں کو گروہ در گروہ پکڑ کر جیلوں اور کالی کوٹھریوں میں بند کر دیا جاتا تھا اور ان کو بے دریغ شکنجوں اور اذیت کے ساتھ قتل کر دیا جاتا تھا۔ بعض لوگوں کی گردن اڑا دی جاتی تھی، بعض کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اور بعض کو زندہ عمارتوں کی دیواروں میں چنوا دیا جاتا تھا ۔
عباسی خلیفہ منصور نے چھٹے امام کو گرفتار کرنے کے لئے حکم جاری کیا (امام ششم اس سے پھلے بھی ایک بار عباسی خلیفہ سفاح کے حکم سے گرفتار کرکے عراق بھیجے گئے تھے اور اس سے پھلے پانچویں امام کی زندگی میں اموی خلیفہ ھشام کے حکم سے آپ کو دمشق میں گرفتار کیا گیا تھا) ۔
امام (ع) ایک مدت تک نظر بند رھے اور کئی بار آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور آپ کی توھین کی گئی لیکن آخر کار آپ کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی گئی اور امام (ع) واپس مدینہ تشریف لے گئے اور باقی تمام عمر خاموشی اور تنہائی میں گزار دی، یھاں تک کہ منصور کی چالبازی سے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا گیا۔ (۲)
چھٹے امام کی شھادت کی خبر سنتے ھی عباسی خلیفہ منصور نے مدینہ کے والی کو حکم دیا کہ آپ کے وارثوں پر مھربانی کے بھانے امام کے گھر جائے اور آپ کے وصیت نامے کو لے کر پڑھے اور جس کسی کو آپ کا وصی یا جانشین بنایا گیا ھو اس کی فوراً گردن اتار دی جائے۔ البتہ اس حکم سے منصور کا مطلب یہ تھا کہ امامت کے سلسلے کو ختم کر دیا جائے اور شیعہ مذھب کی آواز کو مکمل طور پر خاموش کر دیا جائے لیکن اس کی سازش کے برعکس جب مدینہ کے حاکم نے وصیت نامہ پڑھا تو دیکھا کہ امام نے پانچ افراد کو اپنا جانشین مقرر کیا ھے یعنی
(۱) خود خلیفہ (منصور عباسی) (۲)مدینے کا والی (۳)عبد اللہ افطح امام کے بڑے فرزند (۴)موسیٰ علیہ السلام امام کے چھوٹے فرزند (۵)حمیدہ ۔ اس طرح منصور کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔(۳)
تبیان
================================
امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعض نصائح وارشادات

 ۔ سعید وہ ہے جو تنہائی میں اپنے کو لوگوں سے بے نیاز اور خد اکی طرف جھکا ہوا پائے ۔

 ۔ جو شخص کسی برادر مومن کا دل خوش کرتا ہے خداوند عالم اس کے لیے ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اس کی طرف سے عبادت کرتا ہے اورقبر میں مونس تنہائی ، قیامت میں ثابت قدمی کا باعث، منزل شفاعت میں شفیع اور جنت میں پہنچانے مین رہبر ہوگا۔

 ۔ نیکی کا تکملہ یعنی کمال یہ ہے کہ اس میں جلدی کرو، اور اسے کم سمجھو، اور چھپا کے کرو۔

 ۔ عمل خیر نیک نیتی سے کرنے کو سعادت کہتے ہیں۔

۵ ۔ توبہ میں تاخیر نفس کا دھوکہ ہے۔

 ۔ چار چیزیں ایسی ہیں جن کی قلت کو کثرت سمجھنا چاہئے ۱ ۔آگ، ۲ ۔ دشمنی ، ۳ ۔ فقیر، ۴ ۔مرض

 ۔ کسی کے ساتھ بیس دن رہنا عزیزداری کے مترادف ہے ۔

 ۔ شیطان کے غلبہ سے بچنے کے لیے لوگوں پراحسان کرو۔

 ۔ جب اپنے کسی بھائی کے وہاں جاؤ تو صدر مجلس میں بیٹھنے کے علاوہ اس کی ہر نیک خواہش کو مان لو۔

 ۔ لڑکی (رحمت) نیکی ہے اور لڑکا نعمت ہے خدا ہر نیکی پر ثواب دیتا ہے اور ہر نعمت پر سوال کرے گا۔

 ۔ جو تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے تم بھی اس کی عزت کرو،اور جو ذلیل سمجھے اس سے خودداری کرو-

 ۔ بخشش سے روکنا خدا سے بدظنی ہے۔

 ۔ دنیا میں لوگ باپ دادا کے ذریعہ سے متعارف ہوتے ہیں اور آخرت میں اعمال کے ذریعہ سے پہچانے جائیں گے۔

 ۔ انسان کے بال بچے اس کے اسیر اور قیدی ہیں نعمت کی وسعت پر انہیں وسعت دینی چاہئے ورنہ زوال نعمت کا اندیشہ ہے۔

 ۔ جن چیزوں سے عزت بڑھتی ہے ان میں تین یہ ہیں: ظالم سے بدلہ نہ لے، اس پرکرم گستری جو مخالف ہو،جو اس کا ہمدرد نہ ہو اس کے ساتھ ہمدردی کرے۔

 ۔ مومن وہ ہے جوغصہ میں جادہ حق سے نہ ہٹے اورخوشی سے باطل کی پیروی نہ کرے ۔

 ۔جو خدا کی دی ہوئی نعمت پر قناعت کرے گا، مستغنی رہے گا۔

 ۔ جو دوسروں کی دولت مندی پرللچائی نظریں ڈالے گا وہ ہمیشہ فقیر رہے گا۔

 ۔ جو راضی برضائے خدا نہیں وہ خدا پر اتہام تقدیر لگا رہا ہے۔

 ۔ جو اپنی لغزش کو نظرانداز کرے گا وہ دوسروں کی لغزش کو بھی نظرمیں نہ لائے گا ۔

 ۔ جو کسی پر ناحق تلوار کھینچے گا تو نتیجہ میں خود مقتول ہوگا-

 ۔ جو کسی کو بے پردہ کرنے کی سعی کرے گا خود برہنہ ہو گا-

 ۔ جو کسی کے لیے کنواں کھودے گا خود اس میں گرجائے گا”چاہ کن راچاہ درپیش“

 ۔ جو شخص بے وقوفوں سے راہ و رسم رکھے گا،ذلیل ہوگا،جو علماء کی صحبت حاصل کرے گا عزت پائے گا،جوبری جگہ دیکھے گا، بدنام ہوگا۔

 ۔ حق گوئی کرنی چاہئے خواہ وہ اپنے لیے مفید ہو یا مضر،۔

 ۔ چغل خوری سے بچو کیونکہ یہ لوگوں کے دلوں میں دشمنی اورعدوات کابیج بوتی ہے۔

 ۔اچھوں سے ملو،بروں کے قریب نہ جاو،کیونکہ وہ ایسے پتھرہیں جن میں جونک نہیں لگتی ،یعنی ان سے فائدہ نہیں ہوسکتا

(نورالابصارص ۱۳۴) ۔

 ۔ جب کوئی نعمت ملے تو بہت زیادہ شکر کرو تا کہ اضافہ ہو-

 ۔ جب روزی تنگ ہو تو استغفار زیادہ کیا کرو کہ ابواب رزق کھل جائیں۔

 ۔ جب حکومت یاغیرحکومت کی طرف سے کوئی رنج پہنچے تولاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم زیادہ کہوتاکہ رنج دورہو،غم کافورہو،اورخوشی کا وفورہو

(مطالب السول ص ۲۷۴،۲۵۷) ۔
Related Articles in Same Category
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Press "Hide/Show" To Read Other's Comments

Item Reviewed: Imam Jafar Sadiq (R.A) Description: Rating: 5 Reviewed By: Unknown
Scroll to Top