Like us on Facebook

Sep 17, 2011

Evocation of Islamic Culture and End of Dictators

اسلامي بيداري کے موضوع پر پہلا بين الاقوامي اجلاس سنيچر کو تہران ميں شروع ہورہا ہے جس ميں عالم اسلام کے اسّي ملکوں کے چھے سو سے زائد دانشوروں کے ساتھ ہي امريکا اور يورپ کے اسکالروں کي بڑي تعداد بھي شرکت کررہي ہے -
گزشتہ مہينوں کے دوران مشرق وسطي اور شمالي افريقا ميں رونما ہونے والے تغيرات اور عوامي جدوجہد کي لہر نے دنيا والوں کي توجہ اپني جانب مبذول کررکھي ہے-
عوامي جدوجہد کي شکل ميں بيداري کي نئي لہر کا آغاز تيونس ميں ايک نوجوان کي احتجاجا خود سوزي سے ہوا اور ديکھتے ہي ديکھتے پورا تيونس عوام کي انقلابي جدوجہد کي لپيٹ ميں آگيا- اور سرانجام ملک کے ڈکٹيٹر بن علي کو بھاگنا پڑا اور اس نے سعودي عرب ميں پناہ لي -
تيونس کے بعد مشرق وسطي اور شمالي افريقا کے متعدد عرب ملکوں ميں جہاں عوام ميں پہلے سے ہي ڈکٹيٹر اور سامراجي طاقتوں سے وابستہ حکومتوں سے شديد ناراضگي پائي جاتي تھي، انقلابي تحريک کا آغاز ہوگيا - بحرين، يمن، اردن، الجزائر، ليبيا ، مراکش حتي سعودي عرب ميں عوام اپنے بنيادی حقوق کے حصول کے لئے سڑکوں پر آگئے
تيونس کے بعد مصر ميں اسلامي بيداري کے نتيجے ميں عوام کي جدوجہد ميں تيزي آئي اور سرانجام عوام نے ڈکٹيٹر حسني مبارک کا تختہ الٹ ديا جو امريکي اور اسرائيلي مفادات کا نگراں تھا-
بحرين ميں عوام کي جدوجہد اور انقلابي تحريک کي سرکوبي کے لئے امريکا کے اشارے پر سعودي عرب اور بعض ديگر عرب ملکوں کي فوج آئي مگر عوامي تحريک سعودي و بحريني فوجيوں کي تمام تر بربريت کے باوجود پوري شدت کے ساتھ جاري ہے
يمن کا ڈکٹيٹر بھي زخمي ہونے کے بعد سعودي عرب ميں پناہ گزين ہوا - بحرين کي طرح يمن ميں بھي سعودي حکومت ، امريکي ايجنڈے پر کام کرتے ہوئے مداخلت کررہي ہے اور يہاں بھي اس نے عوام کي سرکوبي کے لئے فوجي دستے بھيبجے ہيں مگر يہاں بھي عوام کے جوش و خروش ميں کمي نہيں آئي ہے اور انہوں نے اپني تحريک جاري رکھي ہے -
ليبيا ميں قذافي نے شروع ميں انقلابيوں کے مقابلے ميں مزاحمت کي مگر سرانجام اس کو بھي شکست کا سامنا ہونے لگا تو امريکا اور اس کے اتحاديوں نے ليبيا کے عوام کے انقلاب کو ہائي جيک کرنے کے لئے اس ملک ميں براہ راست فوجي مداخلت کي - ليکن اگر اس ملک کے عوام اور ان کے رہنماؤں نے ہوشياري سے کام ليا تو امريکا اور اس کے اتحاديوں کو انقلاب کو منحرف کرنے ميں کاميابي نہيں ہوگي
تہران کے خطيب جمعہ نے کہا ہے کہ علاقے ميں اسلامي بيداري کے شعلے، ڈکٹيٹروں کے سقوط اور سامراج مخالف جذبات ميں شدت آنے کا باعث ہيں-
آج تہران کي نماز جمعہ آيت اللہ سيد احمد خاتمي کي امامت ميں ادا کي گئي
انہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں ميں زور دے کر کہا کہ علاقے ميں اسلامي بيداري کے مقدس شعلے ڈکٹيٹروں کو تخت و تاج کو اکھاڑ رہے ہيں اور سامراج مخالف جذبات کو تقويت عطا کر رہے ہيں
انہوں نے کہا کہ مصر کے مسلمان عوام کي جانب سے قاہرہ ميں اسرائيلي سفارتخانے پر قبضہ، اس حکومت کے سفير اور سفارتي عملے کے ديگر اکہتر افراد کا فرار ہونا اور اسي طرح اردن سے صيہوني حکومت کے سفير کا بدلے ہوئے کپڑوں ميں فرار ہونا، اس حکومت کے ليے باعث ذلت ہے- انہوں نے مصر اور اردن کے مسلمان عوام کے اس عملي اقدام کو دنيا کے حريت پسندوں کے ليے اس پيغام کا حامل بتايا کہ وہ امريکي سامراج اور اس کے پٹھو صيہوني حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں-
آيت اللہ خاتمي نے کہا کہ انقلابيوں نے يہ اعلان کرکے کہ ان کي تحريک اسلامي تحريک ہے اور اس کا مقصد اسلامي جمہوريت کا قيام ہے، امريکا کو لرزہ بر اندام کر ديا ہے- انہوں نے اميد ظاہر کي کہ اسلامي بيداري کي يہ لہرعلاقے کے ڈکٹيٹروں کي مکمل نابودي تک جاري رہے گي
Related Articles in Same Category
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Press "Hide/Show" To Read Other's Comments

Item Reviewed: Evocation of Islamic Culture and End of Dictators Description: Rating: 5 Reviewed By: Unknown
Scroll to Top